برطانوی پارلیمنٹ: کورونا بحران سے استفادہ کرنے پر حکومت سے اخوان کی نگرانی کرنے کا مطالبہ

ایک برطانوی ممبر پارلیمنٹ نے بدھ کے روز حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کورونا وائرس (کوویڈ 19) کے اس بحران میں "اخوان المسلمون" تنظیم کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور اس کے اس بحران سے فائدہ اٹھانے پر کڑی نظر رکھے اور اس تشویش ناک صورت حال سے متعلق رپور
ایک برطانوی ممبر پارلیمنٹ نے بدھ کے روز حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کورونا وائرس (کوویڈ 19) کے اس بحران میں "اخوان المسلمون" تنظیم کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور اس کے اس بحران سے فائدہ اٹھانے پر کڑی نظر رکھے اور اس تشویش ناک صورت حال سے متعلق رپورٹ پیش کرے۔
دی نیشنل کے مطابق یہ بات برطانوی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر ایک 54 سالہ ممبر پاریمنٹ اینڈریو روزینڈل کے ان سوالوں کے جواب میں سامنے آئی ہے جن میں انہوں نے برطانیہ کے اندر اخوان المسلمین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے متعلق معلوم کیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ پیٹیشن ان خدشات کو دیکھتے ہوئے داخل کی گئی ہے کہ کہیں یہ شدت پسند گروہ "کوویڈ 19" وبائی امراض کو اپنے اثرات کو بڑھانے کے لئے استعمال نہ کر لیں۔
روزنڈال نے وزیر داخلہ پریٹی پاٹل سے ملک میں اخوان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے متعلق ان کے جائزہ کے بارے میں سوال کیا ہے کہ ان کی یہ سرگرمیاں ملک میں معاشی بدحالی کے نتیجے میں تو نہیں بڑھی ہیں۔
وزیر خارجہ ڈومینک ریپ سے کئے جانے والے اسی طرح کے ایک سوال میں قدامت پسند سیاستدان نے بیرون ملک میں اخوان کی فوجی بھرتیوں کی سرگرمیوں سے متعلق عالمی معاشی بدحالی کا اندازہ لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت برطانیہ میں دہشتگرد گروہوں سے قریبی تعلقات کے پیش نظر اخوان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے بارے میں خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ سال امریکہ نے اخوان المسلمون تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کرنے کے سلسلہ میں غور وفکر کیا تھا۔
برطانیہ میں مقیم اخوان کے ہمنواؤں نے برطانیہ میں انتہا پسندی کی روک تھام کی حکمت عملی کے خلاف جاری مہموں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
برطانوی اسلامی کونسل (ایم سی بی) پر اخوان کے اثر ورسوخ کے بارے میں تشویش پائی جارہی ہے کیونکہ ایم سی بی نے حال ہی میں یہ بیان جاری کیا ہے کہ تنظیم اخوان المسلمین فرقہ وارانہ تنظیم نہیں ہے اور خیال رہے کہ ایم سی بی کے ما تحت 500 سے زیادہ اسلامی تنظیمیں کام کرتی ہیں۔
ایک سرکاری رپورٹ میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں برطانوی اسلامی کونسل اور اسلامی ایسوسی ایشن پر اخوان المسلمون کا بڑا اثر ورسوخ ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب اور عراق میں برطانیہ کے سابق سفیر سر جان جینکنز کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی یے تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کس طرح اس تحریک نے رازدارانہ انداز میں شہری اداروں پر اپنے اثرات مضبوط کئے ہیں اور ان اثرات کو جاننا مشکل بھی ہو رہا ہے۔
تاہم حکومت نے اخوان المسلمین کے بارے میں سنہ 2015 کی رپورٹ کے نتائج ابھی تک مکمل طور پر شائع نہیں کئے ہیں جس کا حکم وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے دیا تھا۔
پچھلے مہینے ایسیکس کاؤنٹی میں رومفورڈ کے نمائندے روزندیل نے یورپی انسٹی ٹیوٹ آف ہیومینٹیز اور اخوان کے مابین روابط کے بارے میں معلوم کیا تھا۔
وزارت داخلہ نے جواب دیا ہے کہ وہ برطانیہ میں اخوان کے شراکت داروں کی سرگرمیوں اور ان کے نظریات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
وزارت داخلہ اور برطانوی اسلامی کونسل کے مابین باضابطہ رابطے پر قابو پانے والے قواعد میں نرمی برتنے کے بعد برطانوی حکومت کے حلقوں میں اخوان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے بارے میں خدشات پائے جارہے ہیں۔
اس بات کی بھی خبریں ہیں کہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی جاری رکھنے والی انگلینڈ پبلک ہیلتھ اتھارٹی اور برطانوی اسلامی کونسل کی ویڈیوز کو فروغ دینے میں سپورٹ کرنے کے درمیان گہرا تعلق ہے۔
برطانیہ میں بدھ کی صبح تک ایچ آئی وی کے 161145 سے زیادہ مریض اور 21678 سے زیادہ افراد کی موت کی اطلاع ملی ہے۔
صحیح بات تو یہ تھی کہ وزرات داخلہ اور وزارت خارجہ روزنڈال کے سوالات کے جوابات 7 دن کے دوران دیتی۔
گزشتہ فروری کے مہینے میں برطانوی پارلیمنٹیرینز نے مطالبہ کیا تھا کہ اخوان پر پابندی عائد کی جائے اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم تسلیم کیا جائے اور سیاست دانوں نے اخوان پر دوسرے مذاہب کے بارے میں عدم رواداری اور مسجدوں میں روپوش ہونے پر تنقید بھی کی ہے۔