سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے والی پاکستانی خواتین
دنیا بھر میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والی خواتین کو فی الوقت جن بڑے مسائل کا سامنا ہے، ان میں صنفی تعصب، جنسی ہراسانی اور لوگوں کے غیر حوصلہ افزا رویے سرفہرست ہیں۔
دنیا بھر میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والی خواتین کو فی الوقت جن بڑے مسائل کا سامنا ہے، ان میں صنفی تعصب، جنسی ہراسانی اور لوگوں کے غیر حوصلہ افزا رویے سرفہرست ہیں۔
ڈان نيوز کے مطابق خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کردار ادا کرنے کی خواہش مند خواتین کو سب سے پہلے صنفی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ امریکہ جیسے ملک میں بھی 4، 5 دہائیوں قبل یہی سمجھا جاتا تھا کہ سائنسی تحقیق خاص طور پر خلا، فلکیات، بایو ٹیکنالوجی، طبیعات اور میڈیسن ایسی فیلڈز ہیں، جن میں خواتین کام نہیں کر سکتی ہیں۔
مگر بہت سی با ہمت خواتین جیسے میری کیوری، روزا لینڈ فرینکلین، باربرا میک کلینٹوک، جین گوڈال، کیتھرین جانسن اور ویلنٹینا ٹیرشکووا نے مشکلات کا ہمت سے مقابلہ کر کے ثابت کیا کہ خواتین بھی صلاحیتوں میں مردوں سے کسی صورت کم نہیں ہیں، اور اگر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ کئی سائنسی فیلڈز میں مردوں سے بہتر کام سر انجام دے سکتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے سائنس میں خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے اقدامات اپنے 2030 تک ایجنڈے میں شامل کیے ہیں۔